ہوتا ہے ہر بار یہ اکثر
تیری یاد کے گہرے بادل
میرے دل کے صحراؤں سے
گرج چمک سے عاری عاری
بن برسے یوں گزر جاتے ہیں
جیسے پھول کو الفت نہ ہو
اپنے ہی رنگ اور خوشبو سے
حیسے چاند کو الفت نہ ہو
روشن روشن چاندنی سے
جیسے گیت کو الفت نہ ہو
تال و سر اور راگنی سے
جب جب ایسا ہوجاتا ہے
موسم موسم بن جاتا ہوں
دل کی الجھن بڑھ جاتی ہے
ہجر کے قصے
وصل کی باتیں
مدھم چندا
کاجل راتیں
شام-ے-غم کی آنکھ مچولی
پھر سے طاری ہو جاتی ہے
اور جانے کیوں
ہر بار ہی اکثر
آنکھیں بادل ہوجاتی ہیں
بارش جل تھل ہوجاتی ہیں
میرے دل کے صحراؤں میں
ہریالی سی ہوجاتی ہے
یادیں تازہ ہوجاتی ہیں
جانے کیوں ہر بار ہی اکثر