.
.
موت سی آنکھ میں اترتی ہے
زندگی سانس میں سلگتی ہے
زندگی سانس میں سلگتی ہے
راستے کا سراغ ملنے تک
زندگی لازمن بھٹکتی ہے
دل میں ہوتا ہے زندگی کا گمان
ایک خواہش سی اب دھڑکتی ہے
رات ہوتے ہی اک تمنا ہے
جو سرہانے مرے بلکتی ہے
سائبانوں کی بات کرتے ہو
اب سمندر میں ریت جلتی ہے
تم میرے آس پاس آ جاؤ
سوچ اب دور تک بھٹکتی ہے
.
