پروفیسر صاحب انتہائی اہم موضوع پر لیکچر دے رہے تھے
جیسے ہی وە تختہ سیاہ پر کچھ لکھنے کیلئے پلٹے
کسی طالب علم بے سیٹی ماری۔ پروفیسر صاحب نے مڑ کر پوچھا
کس نے سیٹی ماری ہے؟
کوئی بھی جواب دینے پر آمادہ نا ہوا۔
انہوں نے قلم بند کر کے جیب میں رکھا اور رجسٹر اٹھا کر چلتے ہوئے کہا
پھر انہوں نے تھوڑا سا توقف کی ...میرا لیکچر اپنے اختیتام کو پہنچا
میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں...اور رجسٹر واپس رکھتے ہوئے کہا
میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں تاکہ پیریڈ کا وقت بھی پورا ہوجائے۔
کہنے لگے۔۔۔۔ رات میں نے سونے کی بڑی کوشش کی
مگر نیند کوسوں دور تھی۔ ۔۔۔ سوچا جا کر کار میں پٹرول ڈلوا آتا ہوں
تاکہ اس وقت پیدا ہوئی کچھ یکسانیت ختم ہو، سونے کا موڈ بھی بنے اور صبح سویرے پیٹرول ڈلوانے کی اس زحمت سے بھی بچ جاؤں۔
پھر میں نے پیٹرول ڈلوا کر اُسی علاقے میں وقت گزاری کیلئے گھومتا رہا
کافی مٹرگشت کے بعد گھر واپسی کیلئے کار موڑی تو میری نظر سڑک کے کنارے کھڑی ایک لڑکی پر پڑی۔۔۔۔ نوجوان اور خوبصورت تو تھی ہی،
ساتھ ہی کافی بنی سنوری بھی تھی لگ رہا تھا کسی پارٹی سے واپس آ رہی ہے۔
میں نے کار ساتھ جا کر روکی اور پوچھا، کیا میں آپ کو آپ کے گھر چھوڑ دوں؟
کہنے لگی: اگر آپ ایسا کر دیں تو بہت مہربانی ہوگی۔۔۔
مجھے رات کے اس پہر سواری نہیں مل پا رہی۔ لڑکی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی، گفتگو انتہائی مہذب اور سلجھی ہوئی کرتی تھی، ہر موضوع پر مکمل عبور اور ملکہ حاصل تھا
گویا علم اور ثقافت کا شاندار امتزاج تھی۔ میں جب اس کے بتائے ہوئے پتے ہر اُس کے گھر پہنچا تو اُس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے مجھ جیسا باشعور اور نفیس انسان نہیں دیکھا، اور اُس کے دل میں میرے لیئے پیار پیدا ہو گیا ہے۔
میں نے بھی اُسے صاف صاف بتاتے ہوئے کہا، سچ تو یہ ہے کہ آپ بھی ایک شاہکار خاتون ہیں، مجھے بھی آپ سے انتہائی پیار ہو گیا ہے۔
ساتھ ہی میں نے اُسے بتایا کہ میں یونیوسٹی میں پروفیسر ہوں،
پی ایچ ڈی ڈاکٹر اور معاشرے کا مفید فرد ہوں۔
لڑکی نے میرا ٹیلیفون نمبر مانگا جو میں نے اُسے بلا چوں و چرا دیدیا۔
میری یونیورسٹی کا سُن کر اُس نے خوش ہوتے ہوئے کہا؛ میری آپ سے ایک گزارش ہے۔ میں نے کہا؛ گزارش نہیں، حکم کرو۔ کہنے لگی؛ میرا ایک بھائی آپ کی یونیوسٹی میں پڑھتا ہے، آپ سے گزارش ہے کہ اُس کا خیال رکھا کیجیئے۔
کہنے لگی؛ میرا ایک بھائی آپ کی یونیوسٹی میں پڑھتا ہے، آپ سے گزارش ہے کہ اُس کا خیال رکھا کیجیئے۔ جائیں گے۔ میں نے کہا: یہ تو کوئی بڑی بات نہیں ہے، آپ اس کا نام بتا دیں۔ کہنے لگی:میں اُس کا نام نہیں بتاتی لیکن آپ کو ایک نشانی بتاتی ہوں، آپ اُسے فوراً ہی پہچان لیں گے ۔
میں اُس کا نام نہیں بتاتی لیکن آپ کو ایک نشانی بتاتی ہوں، آپ اُسے فوراً ہی پہچان
میں نے کہا: کیا ہے وہ خاص نشانی، جس سے میں اُسے پہچان لوں گا۔
کہنے لگی: وہ سیٹیاں مارنا بہت پسند کرتا ہے۔ پروفیسر صاحب کا اتنا کہنا تھا کہ کلاس کے ہر طالب علم کی نظر غیر ارادی طور پر اُس لڑکے کی طرف اُٹھ گئی جس نے سیٹی ماری تھی۔ پروفیسر صاحب نے اُس لڑکے کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا، اُٹھ اوئے جانور، کیا؟ تو کیا سمجھتا ہے میں نے یہ پی ایچ ڈی کی ڈگری گھاس چرا کر لی ہے
۔