.
.
سب کے کہنے سے ارادہ نہیں بدلہ جاتا
ہر سہیلی سے دوپٹہ نہیں بدلہ جاتا
ہم کہ شاعر ہیں سیاست نہیں آتی ہم کو
ہم سے منہ دیکھ کے لہجہ نہیں بدلہ جاتا
ہم فقیروں کو فقیری کا نشہ رہتا ہے
ورنہ کیا شہر میں شجرہ نہیں بدلہ جاتا
ایسا لگتا ہے کہ وہ بھول گیا ہے ہم کو
اب کبھی کھڑکی کا پردہ نہیں بدلہ جاتا
اب رلایا ہے تو ہنسنے پہ نہ مجبور کرو
روز بیمار کا نسخہ نہیں بدلہ جاتا
غم سے فرصت ہی کہاں ہے کہ تجھے یاد کروں
اتنی لاشیں ہوں تو کاندھا نہیں بدلا جاتا
عمر اک تلخ حقیقت ہے منورؔ پھر بھی
جتنے تم بدلے ہو اتنا نہیں بدلا جاتا
.