Aaseeb - The Poetry Collections

Hot

Post Top Ad

Your Ad Spot

Saturday, 19 February 2022

Aaseeb

 

 آسیب
 
سب سے پہلے تو سلام عرض ہے بعد از سلام لکھنا تو بہت کچھ ہے لیکن ایک لکھاری ہو کر بھی مجھے اب لمبا لکھتے موت آتی ہے خاص طور پر شادی کے بعد پڑھنے پڑھانے لکھنے لکھانے کا دل ہی نہیں کرتا۔
 
Bhoot

 
 خیر بات چل رہی ہے آج کل بھوتوں پریتوں جنوں چڑیلوں کی اللہ معاف کرے ان سب کے شر سے اللہ سب کو محفوظ رکھے ہیں تو ہم اشرف المخلوقات لیکن جانے مجھ جیسے لوگ اپنا ڈر کیسے ختم کرتے ہو گے
 
ارے نہیں نہیں شروع سے ایسی نہیں ہو میکے میں بھی اگر بہت زیادہ بہادر نہیں بھی تھی تب بھی اتنی بزدل تو ہرگز نا تھی جیسی پچھلے سال رمضان کے بعد سے اب تک ہو گئی ہو
 
شادی ہوئی میری اور دیوارنی کی ایک ساتھ ایک ہی پورشن مطلب اوپر والا ہمیں ملا اور آمنے سامنے کمرے امید سے پہلے میں ہوئی پھر بعد میں وہ اور اُسکی طبعیت بہت خراب رہنے لگی تو وہ میکے چلی گئی 
 
کچھ عرصہ اور میں اوپر اکیلی ہوتی میاں جی کے جانے کے بعد ۔ میاں جی پولیس آفیسر ہیں ٹائمنگز بدلتی کبھی صبح چار بجے جاتے کبھی دن 12 تو کبھی رات آتے ہی نہیں بس یہ واقعہ ہے پچھلے رمضان المبارک کا اور میاں جی سحری کے فورا بعد دفتر چلے جاتے تھے اور میری پیاری بہت بیٹی دنیا میں آچکی تھی..
 
 مزے کی بعد کے بیٹی کے آنے سے پہلے اور دیوارنی کے میکے جانے کے بعد میں سارا سارا دن اور شام میں اوپر اکیلی رہتی تھی کبھی ایک ذرہ بھی ڈر خوف محسوس نہیں ہوا آج سوچتی ہوں تو خود پر حیرت ہوتی ہے کہ کیا وہ تم ہی تھی وجیہہ؟؟؟ 
 
بیٹی کے آنے کے بعد بھی کتنا عرصہ بیٹی کے ساتھ مزے سے رہتی رہی اوپر ۔ میرا روم کافی بڑا ہے ایک طرف سامان ہے میرا اور ایک طرف بیڈ سیٹ ہے۔ اُس دن سحری کے بعد میاں جی چلے گئیے اور میں معمول کے مطابق تین ماہ کی دانین جان کو لے کر اپنے ساتھ لگا کر مچھر دانی میں نماز قرآن پڑھ کر سونے کی کوشش کرنے لگی ساتھ والے روم میں دیور سو رہا تھا اور میرا روم بند تھا اندر سے ۔ 
 
میں مزے سے نیند کی وادیوں میں کھونے ہی والی تھی کہ میرے اوپر ایک دم منوں بوجھ آن پڑا اور یقین کریں آج بھی سوچوں تو روح تک کانپ جاتی ہے کہ اُسی بوجھ کے زیرِ اثر میں نے زرا آنکھیں کھول کر اپنے اوپر دیکھنا چاہا تو بیڈ کے ساتھ پڑے صوفے کے بالکل سامنے پردوں کے پاس مجھے کوئی بہت اونچا سا کالے لباس والا ہیولا سا نظر آیا اور میں بس کہوں کہ آج اسی وقت میں مری کہ مری اور نا صرف نظر آیا
 
 بلکہ وہ آہستہ آہستہ چلتے چلتے میری مچھر دانی کے قریب مجھے میری چھوٹی تائی کی آواز میں آوازیں دیتا چلتا آیا کہ پیچھے تو مڑو اور مجھے بس یہ فکر کہ میری دانین کو کچھ نا ہو اونچی اونچی آیت الکرسی پڑھتی رہی زور سے آنکھیں میچ کے کہ اچانک بھک کر کے وہ جیسے ہوا میں تحلیل ہو کر میرے سامان کے پاس کہیں غائب ہو گیا ایک عجیب آواز کے ساتھ.
 
. ابھی بھی لکھتے لکھتے دل کانپ رہا ہے حالانکہ الحمداللہ اب کافی حد تک قابو پاچکی ہوں اپنے آپ پر ورنہ کئی ماہ میں اپنے کمرے میں اکیلے جھانک کر بھی نہیں دیکھا بس جب میاں جی ہوتے تو میں کمرے میں جاتی اور دانین کو بھی لے کر جاتی۔
 
 پھر ایک دن اپنی جیٹھانی کے روم میں بھی ڈری بہت شدید اور میاں تب رات 12 بجے گھر آتے تھے اُن دنوں اس ڈر کی وجہ سے مجھے ڈپریشن ہونے لگ گیا تھا میرا دل کرتا تھا اس گھر سے بھاگ جاؤں اور جب سرتاج گھر ہوتے بس تب ہی میرا گھر میں دل لگتا ورنہ یہ گھر مجھے وحشت ناک لگنے لگا تھا
 
خیر اُس وقت ڈری جب میں تو جھٹکے سے اٹھی اور اپنی آپی کو آنلائن دیکھ کر کال ملائی تو آپی نے تسلی دی کہ کچھ نہیں ہوتا پھر میاں جی کو ملائی حالانکہ انہیں دفتر میں فون لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی میں نے 15 پر ہی کال ملائی کیونکہ وہ وہاں ہی ہوتے تھے اُن دنوں اُن کا ڈیپارٹمنٹ ہی یہی تھا
 
 پھر میاں جی باہر آئے فون لیا اور مجھے ویڈیو کال کی اور بہت تسلیاں دینے لگے اور کہا کہ میں ویڈیو کال پر ہی ہوں آپ ایسا کریں سامان لیں دانین کا اور نیچے جائیں اللہ سلامت رکھے میرے ساس سسر کو جو کہ اتنے بڑے گھر کی اب وہی رونق ہیں کیونکہ باقی سارے بھائی ماشاءاللہ اپنے اپنے گھروں میں جا چکے ہیں
 
 میں میاں جی اور دیور دیوانی کے علاوہ ساس سسر ہی ہیں اب اس اتنے بڑے گھر میں تو جب میں ڈری تھی مجھے گھر کے ہر کونے سے خوف آتا تھا بہرحال اللہ میرے میاں جی کو خوش رکھے جنہوں نے اُس عجیب و غریب سچویشن میں سے نکلنے میں میرا بہت ساتھ دیا۔
 
خیر پھر میں نیچے گئی تو میری ماموں یعنی سسر سو رہے تھے اور ساس بڑی نند کے گھر گئی ہوئیں تھیں میں نے فوراً چھوٹے بھائی کو کال کی مجھے ابو سے ملنا ہے مجھے لے جاؤ آکر وہ آگیا اور میں میکے گئی ابو کو ساری بات بتائی اللہ میرے ابو کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے وہ عالم دین تھے اور چار سال. کینسر جیسی مہلک بیماری سے لڑتے لڑتے دو ماہ پہلے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے، انہوں نے اگلے ہی دن بیماری کی حالت میں ہی مشکل سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر میرے روم میں آیے میرے کمرے کو حصار دیا
 
 میری دیوارنی کے کمرے کو بھی جو ابو کی چہیتی ترین شاگردہ رہ چکی تھی اور مجھے ڈھیر تسلی دی کہ تمہیں کبھی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی تم تو ویسے بھی حافظہ ہو ڈرنا بالکل نہیں لیکن سچ کہوں وہ واقعہ میرے ذہن پر ایسے گہرے اثرات چھوڑ گیا تھا کہ میں اب میاں جی کی غیر موجودگی میں کمرے میں نہیں جاتی اب تو پھر بھی رہ لیتی ہوں کافی قابو پا لیا ہے 
 
اللہ مامی ماموں کو سلامت رکھے میں اور میری دانین ہم دونوں ہوتے ہی نیچے ہیں نیچے والے پورشن سے بھی ڈری تھی جیٹھانی کے کمرے میں سوتے میں کسی نے آکر کہا تھا تم یہاں کیا کر رہی ہو یہ تمہاری جگہ نہیں اور مجھے بس اُس کے الجھے عجیب سے بال یاد ہیں مگر اب وہاں ڈر نہیں لگتا خود کو سمجھاتی رہتی ہوں کہ ابھی تو سب کے ساتھ ہو کل کو اکیلے گھر میں رہنا پڑ گیا پھر کیا کروگی؟؟
 
لیکن یقین کریں ان دونوں واقعات کے بعد سے میں نے خود کو کیسے سمجھایا یا نارمل کیا یہ یا تو اللہ جانتا ہے یا بس دانین کے باباکو پتہ ہے اور اب بس مجھے شام میں اپنے کمرے سے ڈر لگتا ہے باقی سارے گھر میں آرام سے رہ لیتی تھی اور رہتی اب بھی میاں جی کی غیر موجودگی میں زیادہ تر مامی کے ساتھ ہوں
 
دیوانی میری شیرنی ہے وہ بھی بہت کچھ محسوس کر چکی مگر وہ ڈرتی نہیں اور اوپر والے پورشن میں اکیلی بھی رہ جاتی ہے میں اُسے کہتی ہوں یار آدھی بہادری مجھے دے دو تو وہ ہنستی ہے اور کہتی ہے یار انسان اشرف المخلوقات ہے اُس پر کوئی حاوی نہیں ہو سکتا خود کو بہادر بنائیں کل کو اپنے گھر بھی جانا ہے
 
خیر دعا کریں میں مکمل بہادر بن جاؤں اور ایسی صورت حال سے پھر کبھی نا گزروں وہ واقعہ شدید ترین اثرات چھوڑ گیا ہے میری زندگی پر میں کبھی اتنی بزدل نہیں تھی جتنی اب ہوں ہاں حافظہ ہونے کے باوجود اور ایک بیٹی کی ماں ہونے کے باوجود 
 
سیدہ وجیہہ بخاری

Post Top Ad

Your Ad Spot