۔
میں بھول آتا ہوں اپنے قدم
کسی بھی اجنبی کی منزل پہ
سفر میری تجدید کرتا ہے
اور نظم
میرے ہونے کا احساس دلاتی ہے
تین آوازوں نے مل کے
میرا چہرہ بنایا
پھر بھی آئینہ میرا عکس بیچ کے
اچھے دام کھرے کر لیتا ہے
میری کھوج میں تم بھی شامل ہو
اور تسخیر کا عدد چودہ ٹھہرا ہے
مجھ سے خوف مت کھاو
میں سہمے ہوئے بچے کا خواب ہوں
بھرے صحرا میں
جس کے بھائی کا ہاتھ
اس سے چھڑا لیا گیا
اس کی چھاگل میں
ذرد اندھیرے رہ گئے
اب وہ ریت کے جوتے پہن کے
رات کی گلیوں سے
اپنے لیے نیند کے لمحے چنتا ہے
اس کا سورج
آج بھی کالا ہے
تنہائی موت سے ایک قدم آگے کا دکھ ہے
میں اپنا ہاتھ پکڑ کے میلوں چلتا ہوں
پھر بھی زندگی مجھ سے
ایک سانس کے فاصلے پہ رہتی ہے
ایک سانس کے فاصلے پہ رہتی ہے
داہنا ہاتھ بیچوں
تو اپنا جسم ڈھانپوں
آغاز گنتا ہوں
تو حرف پورے نہیں پڑتے
پانی پہ لکھے گھر
تقسیم کیسے کروں
میری وراثت نے
مجھے دراڑوں میں چن دیا
کوئی نہیں
جو مجھے رہائی میں سانجھ دے
جیتے رہنا بھی میری
مزدوری میں شامل ہے
مٹی کی دستک
روح کو اجالتی ہے
اور میں ٹوٹتے لمحوں کے
گدلے پانیوں میں ہوں
ذرا میرے لفظ تھامو
اپنی آہٹ کا بوجھ
دوسرے کاندھے پہ کر لوں
عاصم