۔
“ آدمی کتنا پیاسا ہے ، اور کس طرح اسکی پیاس بڑھتی رہتی ہے ، اور کس طرح وہ خوارج میں اپنے لئے تسکین اور آسودگی تلاش کرتا ہے ، مگر کیا کبھی بھی اسے تسکین نصیب ہوتی ہے ؟ کبھی آسودگی ملتی ہے ؟ ، مگر وہ بالکل کسی سمندر ہی کی طرح موج در موج آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ کبھی چٹانوں کو کاٹتا ہے ، کبھی پہاڑوں میں رخنے کر کے انکے پرخچے اڑا دیتا ہے ، اپنی بے چینی کی وجہ وہ خود ہے ، اور اپنی تسکین کا سامان بھی اپنے دامن میں رکھتا ہے ، مگر وہ دوسروں کی پیاس تو بجھا دیتا ھے ، خود اپنی پیاس بجھانے کا سلیقہ نہیں رکھتا ۔۔۔۔ تم اسے پیاسا سمندر کہہ سکتی ہو بے بی ۔۔۔ جو پانی ہی پانی رکھنے کے باوجود بھی ازل سے پیاسا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس وقت تک پیاسا رہے گا جب تک کہ اسے اپنا عرفان حاصل نہ ہو جائے ......!!”
( ابنِ صفی ۔ ناول “پیاسا سمندر” سے اقتباس )
English Translate:
"How thirsty a man is, and how his thirst keeps increasing, and how he seeks satisfaction and relief for himself in Khawarij, but does he ever get satisfaction?" Do you ever get relief? But it moves forward in wave after wave just like an ocean. Sometimes he cuts the rocks, sometimes he goes into the mountains and blows their leaves, he himself is the cause of his anxiety, and he also keeps the material of his satisfaction at his feet, but he quenches the thirst of others, himself. He does not have the habit of quenching his thirst. You can call it a thirsty sea, baby. Who is eternally thirsty despite having only water. And he will remain thirsty until he attains his enlightenment...!!!”
(Ibn-e-Safi. Excerpt from the novel "The Thirsty Sea")